ماہِ ذی الحج کوئز ۲۰۲۳

  • Post author:
  • Post last modified:جولائی 2, 2023

ماہِ ذی الحج مسلمانوں کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع جو حج بیت اللہ کی صورت میں ہر سال واقع ہوتا ہے اور ساتھ میں ہی اولوالعزم نبی حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی راہِ خدا میں پیش کی جانے والی پرخلوص قربانی کا یادگار بھی ہے۔ اسی طرح مومنین کے لیے غدیر اور مباہلہ جیسی ایمان افروز عیدیں بھی اسی ماہِ مبارک میں آتی ہیں۔ زیر نظر نوشتار میں مرحلہ وار ان چاروں اہم مناسبتوں اور موضوعات کو قرآن کریم کی روشنی میں مطالعہ کریں گے اور ان کا قرآنی و تاریخی جائزہ لیں گے۔ ان شاء اللہ

حج بیت اللہ

حصہ اول ​

حج سے متعلق قرآن میں متعدد آیات نازل ہوئی ہیں ۔ حتی کہ پورا ایک سورہ ، سورہ حج کے نام سے موجود ہے۔یہاں پر پہلے حصے میں خود بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ اور دوسرے حصے میں حج سے متعلق قرآنی آیات ، ان کے الفاظ معانی، مختصر تفسیری نکات بیان کرتے ہیں۔

۱۔بیت اللہ کے بارے میں:

خانہ کعبہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ مختلف انبیاء کے ادوار میں اس کی تعمیر ومرمت بھی کی گئی اور اس کو تباہ کرنے سے متعلق واقعات بھی تاریخ میں ملتے ہیں۔ بلاشبہ بیت اللہ مسلمانوں کے لیے اجتماع کی ایک بہترین جگہ ہے۔مندرجہ ذیل میں بیت اللہ سے متعلق چند قرآنی آیات ذکر کرتے ہیں:

(۱) وَ اِذۡ بَوَّاۡنَا لِاِبۡرٰہِیۡمَ مَکَانَ الۡبَیۡتِ اَنۡ لَّا تُشۡرِکۡ بِیۡ شَیۡئًا وَّ طَہِّرۡ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡقَآئِمِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ۔وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ۔لِّیَشۡہَدُوۡا مَنَافِعَ لَہُمۡ وَ یَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ۚ فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ۔ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَ لۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمۡ وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ۔ (سورہ حج آیت ۲۶ تا ۲۹)

اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کو مستقر بنایا (اور آگاہ کیا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع اور سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔ تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو ان جانوروں پر جو اللہ نے انہیں عنایت کیے ہیں، پس ان سے تم لوگ خود بھی کھاؤ اور مفلوک الحال ضرورتمندوں کو بھی کھلاؤ۔ پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔

الفاظ۔ معانی:

بَوَّاۡنَا: البواء کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا مساوی (ہموار) ہونے کے ہیں۔

رِجَالًا: راجل ۔ پیدل چلنے والا۔ اس کی جمع رجال آتی ہے۔

ضَامِرٍ: ضمر لاغر ہونے کے معنوں میں ہے۔

لۡیَقۡضُوۡا: قضا کے معنی ازالہ کے ہیں۔ اصل میں قضا ، قطع اور جدا کرنے کو کہتے ہیں۔

تفسیری نکات:

جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کو آمادہ کیا: ممکن ہے آمادگی سے مراد، تعمیر نو کے لیے اس گھر کی نشاندہی کرنا ہو یا یہ کہ اسے عبادت کے لیے مرکز و مرجع کے طور پر تیار کیا۔
اس گھر کو اس لیے آمادہ کیا کہ اس گھر میں صرف میری عبادت ہو اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ اس گھر کو نفی شرک کی ایک عظیم تحریک کے لیے مرکز بنائے۔
نماز کے تین ارکان کا ذکر ہے: قیام، رکوع اور سجود۔ اس سے یہ عندیہ ملتاہے کہ اسلام کا طریقۂ عبادت ابراہیمی ہے۔
وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ: اے ابراہیم لوگوں میں حج کا اعلان کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ اعلان پوری فطرت کی گہرائیوں، جبلت کے کانوں، آنے والی نسلوں اور آفاق عالم میں گونج رہا ہے۔ اس کی صدائے بازگشت قیامت تک آتی رہے گی: لبیک اللّٰہم لبیک۔ لبیک لا شریک لک لبیک ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی توحید پرستی میں یکسوئیت ہے جس کی وجہ سے وہ تمام ادیان کے لیے سند بن گئی۔
لِّیَشۡہَدُوۡا: یعنی لیحضروا تاکہ وہ حاضر ہو جائیں اپنی منفعتوں کے لیے جو دینی اور دنیوی منفعتوں پر مشتمل ہیں۔ چنانچہ مروی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ یہاں منافع دنیا مراد ہیں یا منافع آخرت؟ تو فرمایا:سب مراد ہیں۔
حج کے دنیاوی فوائد کے لیے حدیث میں آیا ہے:’’ جو تین حج بجا لاتا ہے وہ کبھی بھی تنگدست نہ ہو گا۔‘‘
ثواب آخرت کے بارے میں حدیث ہے:’’سواری پر جانے والوں کے لیے ہر قدم پر ستر نیکیاں اور پیدل چلنے والوں کے لیے ہر قدم پر سات سو ایسی نیکیوں کا ثواب ہے جو حرم کی نیکیوں کا ہے۔ پوچھا گیا حرم کی نیکی کیا ہے؟ فرمایا: ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔‘‘

(۲) اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ۔فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ۚ وَ مَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ؕ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ (سورہ آل عمران آیت ۹۶ و ۹۷)

سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے جو عالمین کے لیے بابرکت اور راہنما ہے۔اس میں واضح نشانیاں ہیں (مثلاً) مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا وہ امان والا ہو گیا اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو عالمین سے بے نیاز ہے۔

الفاظ۔ معانی:

بَیۡتٍ: رات کا ٹھکانا۔ رات کا قیام ببیوتہ کہلاتا ہے۔ بعد میں لفظ بَيْت ہر مسکن اور مکان کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔

بکۃ: یعنی مکہ۔ قدیم زمانے میں اس شہر کا نام بکّہ تھا، بعد میں باء میم سے بدل گیا۔ قرآن نے قدیم لفظ استعمال فرما کر خانہ کعبہ کی قدامت کی طرف لطیف اشارہ فرمایا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ مسجد الحرام کی جگہ کو بکّہ اور پورے حرم کو جس میں دوسرے گھر بھی شامل ہیں مکہ کہا جاتا ہے۔

مبارک: ہر وہ چیز جس میں خیر و برکت پائی جائے۔ برکۃ کسی چیز میں اللہ کی طرف سے اچھائی ثابت ہونے کے معنوں میں ہے۔

تفسیری نکات:

یہودیوں کو اعتراض تھا کہ رسول اسلام (ص) نے سابقہ انبیاء کے قبلے یعنی بیت المقدس کو چھوڑ کر اپنے لیے ایک نیا قبلہ بنا لیا ہے۔ اس کے جواب میں فرما یا جا رہا ہے: سب سے پہلا گھر یعنی قبلہ تو کعبہ ہے، جو انبیاء کا قبلہ رہا ہے۔
خانہ کعبہ کو اولین خانہ خدا ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسلامی روایات کی روسے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے اس گھر کی تعمیر کی۔ بقول بعضے طوفان نوح علیہ السلام کے باعث انہدام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے دوبارہ تعمیر کیا۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی۔ توریت میں بھی اس بات کا ذکر موجود ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت ایل یعنی بیت اللہ کی تعمیر کی۔ یہودی اس سے بیت المقدس مراد لیتے ہیں۔ حالانکہ خود یہودیوں کے ہا ںیہ امر مسلم ہے کہ بیت المقدس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سینکڑوں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ساڑھے چار سو برس بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا اور انہی کے زمانے میں اسے قبلہ قرار دیا گیا۔
کعبہ، عالمین کے لیے ہدایت کا مرکز اس لیے ہے کہ عصر ابراہیم (ع) سے بہت پہلے کے زمانے سے لے کر آج تک یہ جگہ بارگاہ تقرب الٰہی اور محل عبادت خداوندی رہی ہے۔ یہاں سے دعوت توحید کی ابتداء ہوئی اور ہجرت ابراہیمی کی انتہا۔ یہ جگہ وحی الٰہی کا محل نزول اور ہادی بشریت،محسن انسانیت کی جائے ظہور ہے۔
یہ مقام آیات بینات میں شامل ہے، کیونکہ یہ رسول اسلام (ص) کی صداقت اور قبلہ مسلمین کی قداست و قدامت کی واضح دلیل ہے۔ حضرت ابراہیم (ع) کے قدم مبارک کا نشان ایک زندہ ثبوت ہے کہ اس گھر کو ابراہیم خلیل اللہ (ع) نے تعمیر کیا اور یہی انبیاء (ع) کا قبلہ تھا۔ یہ علامات زمانے میں پیش آنے والے بے شمار طبیعی اور حربی حالات کے باوجود آج تک محفوظ اور موجود ہیں۔
اور اس مقام کی دوسری نشانی یہ ہے کہ اس گھر کو خطہ امن قرار دیا گیا۔ یعنی قانونی امن فراہم کیا کہ یہاں آنے والا خواہ انسان ہو یا حیوان، مجرم اور قاتل ہو یا جرم و خطا کا مرتکب، اسے امن حاصل ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب آپ (ع) سے فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ یہ نشانیاں کون سی ہیں تو آپ (ع) نے فرمایا:’’ ایک تو مقام ابراہیمؑ ہے، جہاں آپؑ جس پتھر پر کھڑے ہوئے تو اس پر آپؑ کا نقش قدم ثبت ہوگیا۔ دوسرا حجر اسود اور تیسرا مسکن اسماعیلؑ ہے۔‘‘

 

(۳) وَ اِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَیۡتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمۡنًا ؕ وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰہٖمَ مُصَلًّی ؕ وَ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡعٰکِفِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ۔(سورہ بقرہ آیت ۱۲۵)

اور (وہ وقت یاد رکھو) جب ہم نے خانہ (کعبہ) کو مرجع خلائق اور مقام امن قرار دیا اور (حکم دیا کہ) مقام ابراہیم کو مصلیٰ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل پر یہ ذمے داری عائد کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔

الفاظ۔ معانی:

اِسۡمٰعِیۡلَ: عبرانی لفظ ہے جو ایشمع یعنی سماع اور ایل یعنی اللّٰہ سے مرکب ہے، جس کا معنی ہے سموع من اللّٰہ ’’اللہ کو خوب سننے والا‘‘۔

تفسیری نکات:

انسانیت ایک ہمہ گیر مرکزیت کی محتاج ہے۔
کعبہ انسانیت کا مرکز و محور اور اس کے امن کا گہوارہ ہے۔
مرکز کو ہر قسم کی آلودگیوں اور خرافات سے پاک رکھنا چاہیے۔
عبادت گاہوں کو جہاں ظاہری نجاست سے پاک رکھنا ضروری ہے، وہاں فکری و عملی خرافات اور آلودگیوں سے پاک رکھنا بھی واجب و لازم ہے۔
فتح مکہ کے وقت رسول خدا (ص) اور حضرت علیؑ کے ہاتھوں بت شکنی سے ان ہستیوں کا پتہ چلتا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کی وارث ہیں۔

۲۔حج کے بارے میں:

اس حصے میں حج کے ذکر شدہ مناسک سے متعلقہ آیات کی تفسیر و تشریح کی جارہی ہے:

(۱) اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یَّعۡلَمۡہُ اللّٰہُ ؕؔ وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ فَاِذَاۤ اَفَضۡتُمۡ مِّنۡ عَرَفٰتٍ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ عِنۡدَ الۡمَشۡعَرِ الۡحَرَامِ ۪ وَ اذۡکُرُوۡہُ کَمَا ہَدٰىکُمۡ ۚ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیۡنَ۔   (سورہ بقرہ ۱۹۷ و ۱۹۸)

حج کے مقررہ مہینے ہیں، پس جو ان میں حج بجا لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر حج کے دوران ہم بستری نہ ہو اور نہ فسق و فجور اور نہ لڑائی جھگڑا ہو اور جو کار خیر تم کرو گے اللہ اسے خوب جان لے گا اور زادراہ لے لیا کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! (میری نافرمانی سے) پرہیز کرو۔ تم پر کوئی مضائقہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے چلو تو مشعر الحرام (مزدلفہ) کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے، حالانکہ اس سے پہلے تم راہ گم کیے ہوئے تھے۔

الفاظ۔ معانی:

اَفَضۡتُمۡ: فیض یعنی چلنا، روانہ ہونا، بہنا۔

عَرَفٰتٍ: اس مقام کا نام ہے جہاں نو (۹) ذی الحجہ کو حجاج ٹھہرتے ہیں۔ عَرَفات کی وجہ تسمیہ میں کئی احتمالات ہیں۔ اول یہ کہ حضرت ابراہیم (ع) کو یہاں اپنے خواب کی صداقت کی معرفت حاصل ہوئی۔ دوم یہ کہ جبرئیل نے اس مقدس مقام کا تعارف کرایا۔ سوم یہ کہ یہاں آکر انسان، اللہ کی جلالت و عظمت کی معرفت حاصل کرتا ہے۔

تفسیری نکات:

دراصل یہاںمناسک حج کے بارے میں ذکر ہے جو نکتہ وار مندرجہ ذیل ہے:

۱۔ حج کے مہینے معین ہیں اور یہ شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی ایام ہیں۔ ان مہینوں میں حج اور عمرہ تمتع بجا لانے کے لیے احرام باندھا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں صرف عمرہ مفردہ کے لیے احرام باندھا جاتا ہے۔

۲۔ حج کے لیے احرام باندھنے کے بعد عائد ہونے والی پابندیوں کا ذکرہے،جن میں سرفہرست جنسی ملاپ ہے۔ یعنی احرام کی حالت میں نہ فقط ہمبستری ممنوع ہے، بلکہ ہر شہوانی قول و فعل حرام ہے۔

۳۔ فُسُوۡق حرام ہے۔ ہر قسم کی حرام چیزوں کا ارتکاب فُسُوۡق ہے۔ اگرچہ یہ حج کے علاوہ بھی حرام ہے، لیکن حج کے دنوں میں اس کی حرمت میں زیادہ شدت آجاتی ہے۔

۴۔ جِدَال: نزاع اور جھگڑا۔ فقہی ابواب میں اس سے مراد قسم کھانا ہے،خواہ وہ سچی قسم ہی کیوں نہ ہو۔ جاہلیت میں لوگ حج بیت اللہ کے لیے آتے تو بڑے بازار لگاتے، ان میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے اور ایک دوسرے کو برے القاب کے ساتھ یاد کرتے تھے۔ اس طرح حج کی عبادت لڑائی جھگڑے میں بدل جاتی تھی۔ اس قسم کی ممکنہ باتوں کے سدباب کے لیے اسلامی حج میں ان سب امور پر پابندی عائد کر دی گئی ۔

۵۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر بات کا علم رکھتا ہے، لیکن خصوصی طو رپر فرمانا کہ جو کار خیر تم بجا لاتے ہو اللہ کو اس کا علم ہے، عمل خیر کی ترغیب اور یہ بتانے کے لیے ہے کہ جب بھی کوئی عمل خیر انجام دو تو یہ عقیدہ ذہن میں زندہ رکھو کہ یہ عمل اللہ کے حضور انجام پا رہا ہے، کیونکہ اس کی ذات ہر وقت اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ یہ عقیدہ عمل صالح کی ترغیب اور عمل بد سے اجتناب کے لیے بے حد مؤثر ہے ۔

۶۔زاد راہ مہیا کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ یعنی اگر حج کے مختصر سفر کے لیے زاد راہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو آخرت کے طویل اور لامحدود سفر کے لیے زاد راہ کتنا ضروری ہوگا اوراس کے لیے بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔

۷۔ ایام حج میں کسب حلال کا عمل حج کے منافی نہیں بلکہ حج کی طرح روزی کمانا بھی عبادت ہے۔ واضح رہے کہ احادیث کے مطابق فضل سے مراد کسب حلال ہے۔

۸۔ عرفات سے روانہ ہونے کے حکم سے یہ بات از خود واضح ہو جاتی ہے کہ حج کا ایک اہم جزو عرفات میں ٹھہرنا ہے کیونکہ روانگی قیام کے بعد ہی متحقق ہوتی ہے۔

۹۔ مشعرالحرام کے پاس اللہ کو یاد کرنے کے حکم سے بھی مزدلفہ میں ٹھہرنے کا حکم واضح ہو جاتا ہے۔

 

(۲) فَاِذَا قَضَیۡتُمۡ مَّنَاسِکَکُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ۔(سورہ بقرہ ۲۰۰)

پھر جب تم حج کے اعمال بجا لا چکو تو اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے آبا و اجداد کو یاد کیا کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ، پس لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے: ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں (سب کچھ) دے دے اور ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔

الفاظ۔ معانی:

خَلَاقٍ: نصیب، حصہ۔

تفسیری نکات:

دور جاہلیت میں عرب اعمال حج سے فراغت کے بعد جلسے منعقد کرتے، ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے اور آباء و اجداد کے کارنامے بیان کرتے تھے۔ اس آیت میں جاہلانہ رسوم ختم کرکے اپنے آباء و اجداد کے ذکرکی طرح ذکر خدا کا حکم دیا گیا ہے۔
ذکر خدا اور اللہ کی بارگاہ میں دعا کے آداب یہ نہیں کہ انسان اللہ سے صرف دنیا طلب کرے جو وقتی اور زائل ہونے والی چیز ہے۔ ایسی دعا سے دنیا تو شاید مل جائے، لیکن آخرت میں کچھ نہیں ملے گا۔ لہٰذا حج جیسی عظیم عبادت کے دوران اور اس کے بعد اللہ سے فقط دنیاوی آرزؤں کی تکمیل کے لیے نہیں بلکہ اپنی اخروی زندگی کے لیے بھی کچھ مانگنا چاہیے۔

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل کی قربانی

حصۂ دوم

اس حصے میں حج کے ایک اہم رکن قربانی کی اصل یعنی  واقعۂ قربانی حضرت اسماعیلؑ سے متعلق قرآنی آیات اور ان کے تاریخی واقعے اور تفسیری نکات کو بیان کیا جارہا ہے:

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ۔فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ۔وَ نَادَیۡنٰہُ اَنۡ یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ۔قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡبَلٰٓـؤُا الۡمُبِیۡنُ۔وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡم۔وَ تَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنٍَسَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ۔کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔(سورہ صافات۱۰۲ تا ۱۱۰)

پھر جب وہ ان کے ساتھ کام کاج کی عمر کو پہنچا تو کہا: اے بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے، اس نے کہا : اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔پس جب دونوں نے (حکم خدا کو) تسلیم کیا اور اسے ماتھے کے بل لٹا دیا،تو ہم نے ندا دی: اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک نمایاں امتحان تھا۔ اور ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا ۔اور ہم نے آنے والوں میں ان کے لیے (ذکر جمیل) باقی رکھا۔ابراہیم پر سلام ہو۔ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔

واقعۂ قربانی:

جب حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے والد کے ساتھ کام کاج کے لیے چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ انہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو برائے رضا خدا ذبح کرنے کا حکم ملا۔ انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی کا درجہ رکھتے ہیں اور وحی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہم السلام کو اس بات میں کوئی تردد نہیں ہوا کہ اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کا حکم مل رہا ہے۔

حضرت خلیل علیہ السلام کا اپنے کمسن بچے کی رائے پوچھنا دلیل ہے کہ بچہ رشد، عقل کے کامل درجہ پر فائز تھا۔ کہتے ہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر اس وقت ۱۳، سال تھی۔انہوں نے جواب دیا: اے اباجان! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں۔ فرزند کا ایثار اور رشد عقلی حیرت انگیز ہے کہ جواب میں کہا جو آپ کو حکم ملا ہے۔ باپ کے خواب پر نہ صرف باپ کو یقین ہے، فرزند کو بھی یقین ہے۔ فرزند یہ بھی جانتا ہے کہ میرے باپ حکم خدا کے آگے سرتسلیم خم کرنے والے ہیں۔ اس سلسلے میں مہر پدری رکاوٹ نہیں بنے گی۔ مجھے بھی حکم خدا تسلیم کرنا چاہیے اور جان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

جب دونوں نے امر الٰہی تسلیم کیا۔ نہایت قابل توجہ ہے مقام تسلیم میں باپ اور بیٹا ایک منزل پر نظر آتے ہیں۔ دونوں کے لیے ایک تعبیر اَسۡلَمَا ، دونوں نے تسلیم اختیار کی۔

اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ جزا مل گئی کہ بیٹے کی قربانی کی عظیم آزمائش میں کامیاب ہوگئے اور فرزند کی نعمت بھی نہ چھینی گئی۔

تفسیری نکات:

انسان کی عظمت، امتحان کی عظمت سے وابستہ ہے۔
مختلف روایات کے مطابق قیامت تک ہونے والی منیٰ کی قربانیاں اور اسی طرح حج کے علاوہ ہر قربانی، حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ ہیں۔ حضرت سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا ذبح عظیم کے مصداق ہونے پر متعدد روایات موجود ہیں۔
ذکر جمیل کے لیے اس سے بہتر کیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ ے بعد مبعوث ہو نے والے تمام انبیاء علیہم السلام ان کی ذریت و اولاد میں سے ہیں، ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو حج کی عبادت قرار دیا اور ان کی قربانی کی یاد تازہ کر نے کے لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔
ہزارہا برس سے نسلاً بعدنسلٍ سلام و محبت ایک ایسی جزا ہے جو حضرت خلیل علیہ السلام جیسے احسان کر نے والوں کے لیے سزا وار ہے۔

واقعۂ غدیر

حصۂ سوم

اس حصے میں رسول اللہﷺ کے انجام دئیے گئے واحد حج میں اہم اعلان یعنی اعلان ولایت جس کا خدا کی طرف سے رسول ﷺ کو حکم پہنچایا گیا اور  جو غدیر کے محل پر ہوا، بیان کیا جارہا ہے:

(۱) یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ) سورہ  مائدہ ۶۷(

اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔

شان نزول:

یہ آیہ شریفہ ۱۸ ذی الحجۃ بروز جمعرات حجۃ الوداع ۱۰ ہجری کو رسول اللہؐ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپؐ غدیر خم نامی جگہ پہنچ گئے تھے۔ چنانچہ آپؐ نے آگے نکل جانے والوں کو جو مقام جحفہ کے قریب پہنچ گئے تھے، واپس بلایا اور آنے والوں کا انتظار کیا اور تقریباً ایک لاکھ کے مجمع میں حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کر کے فرمایا:

ان اللّٰہ مولای و انا مولی المؤمنین و انا اولی بہم من انفسہم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔

اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنوں کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں سے اولی ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔( پیغمبر اکرمؐ نے اس کو تین بار دہرایا)

اللّٰہم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ و اخذل من اخذلہ و ادر الحق معہ حیث دار الا فیبلغ الشاھد الغائب ۔

اے اللہ! جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ اور جو اس سے محبت کرے تواس سے محبت کر، جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کو ترک کرے تو اس کوترک کر اور حق کو وہاں پھیر دے جہاں علی ہو۔ دیکھو جو یہاں حاضر ہیں ان پر واجب ہے کہ وہ سب تک یہ بات پہنچا دیں۔

تفسیری نکات:

یایُّہَا الرَّسُوۡلُ: اس لقب کے ساتھ خطاب سے یہ عندیہ ملتاہے کہ آگے آنے والا حکم منصب رسالت سے مربوط اہم معاملہ ہے، جس کا نہ پہنچانا ساری رسالت کے نہ پہنچانے کے مترادف ہے۔
وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ: فتح مکہ، فتح خیبر اور فتح خندق کے بعد تبلیغ رسالت میں کوئی خطرہ باقی نہیں رہ گیا تھا، لہٰذا جس خطرے کا آیت میں ذکرہے، وہ خود رسولؐ کو لاحق کسی خطرے کا ذکر نہیں ہو سکتا نیز شان رسالت اس بات سے بالاتر ہے کہ کسی ذاتی خوف و خطرے کی وجہ سے تبلیغ رسالت میں کوتاہی کرے۔
وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ: سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک ایسے حکم کی تبلیغ کی بات ہے جس پر پورے اسلامی نظام کا مدار ہے۔
مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ: سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم پہلے رسولؐ پر نازل ہو چکا تھا۔ شاید رسولؐ اس کی تبلیغ کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور ساتھ خود اہل اسلام کی طرف سے الزام تراشی کا خطرہ بھی تھا کہ رسولؐ کنبہ پرستی کرتے ہیں، کیو نکہ اس وقت کے معاشرے میں اگرچہ مخلص مؤمنین کی کمی نہیں تھی، تاہم ان میں منافقین بھی تھے، ضعیف الایمان لوگ بھی تھے اور ایسے لوگ بھی تھے جو بقول قرآن، ان کے دلوں میں مرض ہے اور کچھ لوگ رسول اللہؐ کو دنیاوی بادشاہو ں پر قیاس کرتے تھے اور قانون سازی میں خود رسول اللہؐ کے عمل دخل کو بعید از قیاس نہیں سمجھتے تھے۔
اس حکم کی تبلیغ سے جو خطرہ لاحق تھا، وہ اہل کتاب سے نہیں تھا، کیونکہ اہل کتاب کے بارے میں اس سے پہلے کھلے اور سخت لفظوںمیں اظہار برائت ہو چکا ہے۔

(۲)۔۔۔اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ۔۔۔۔۔ؕ  (سورہ مائدہ آیت ۳)

 آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔

شان نزول:

امامیہ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یہ آیت غدیر خم میں رسول اللہ صلی اللہ و آلہ و سلم کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔ امامیہ کے ساتھ اہل سنت کے ائمہ حدیث کی ایک قابل توجہ جماعت نے بھی اپنی تصنیفات میں متعدد اصحاب رسولؐ سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت ولایت علی علیہ السلام کے اعلان کے بعدغدیر خم میں نازل ہوئی۔

 تفسیری نکات:

ولایت علی علیہ السلام کی اہمیت کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:’’ اپنے آبا و اجداد سے میری محبت ان کی نسبی صورت سے زیادہ عزیز ہے۔ چونکہ ان کی محبت نسب نہ ہو تو بھی میرے لیے فائدہ مند ہے لیکن اگر محبت نہ ہو تو صرف نسب فائدہ مند نہیں ہے۔‘‘
دین اسلام انسانیت کے لیے اللہ کی بڑی نعمت ہے۔ اس دین کے محافظ (امام ؑ) کے تعین سے اس نعمت کی تکمیل ہو گئی۔
اصحاب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے واقعۂ غدیر کے راوی درج ذیل ہیں: 1۔ زید بن ارقم (طبری: الولایۃ) 2۔ ابوسعید خدری (حافظ ابن مردویہ تفسیر ابن کثیر 2: 14) 3۔ابوہریرہ (تفسیر ابن کثیر 2:14) 4۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (نطنزی۔ الخصائص)

عید مباہلہ

حصۂ چہارم

اس حصے میں عیسائیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ مباہلہ کی تاریخی و قرآنی حیثیت بیان کی جارہی ہے:

فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ)سورہ آل عمران ۶۱(

آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

الفاظ۔ معانی:

مباہلہ: کسی چیز کو دیکھ بھال کے بغیر اپنی حالت پر چھوڑ دینا۔ نفرت کرنا۔ اللہ کی رحمت سے دور اپنے حال پر چھوڑدینے کے لیے بد دعا کرنا۔ الابتہال یعنی عاجزی سے دعا کرنا۔

واقعہ مباہلہ:

 فتح مکہ کے بعد غلبہ اسلام کا دور شروع ہوا اور اسلام نے جزیرہ نمائے عرب سے باہر پھیلنا شروع کیا۔ چنانچہ ہرقل روم، کسرائے ایران، مقوقس، حارث شاہ حیرہ، شاہ یمن اور شاہ حبشہ تک اسلام کی دعوت پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی ان حالات سے نہایت پریشان تھے۔ اتنے میں ان کے پاس رسول اللہ (ص) کی طرف سے دعوت اسلام پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی پادریوں میں بے چینی پھیل گئی۔ ان کے ارباب حل و عقد اور سرداران قبائل ایک جگہ جمع ہو گئے اور اسلام سے بچنے کی تجاویز زیر غور آئیں۔ اس گرما گرم بحث میں کچھ لوگ اسلام کے حق میں مؤقف رکھتے تھے، لیکن اکثر لوگ اسلام کے خلاف سخت مؤقف رکھتے تھے۔ آخر میں اپنے رہنماؤں السید اور العاقب کی رائے معلوم کی تو ان دونوں نے کہا: دین محمد (ص) کی حقیقت معلوم ہونے تک اپنے دین پر قائم رہیں۔ ہم خود یثرب جا کر قریب سے دیکھتے ہیں کہ محمد (ص) کیا دین لائے ہیں۔ چنانچہ السید اور العاقب اپنے مذہبی پیشواء ابو حاتم کی معیت میں چودہ رکنی وفد اور ستر افراد کے ہمراہ یثرب کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ لوگ نہایت نفیس لباس زیب تن کیے، نہایت تزک و احتشام کے ساتھ شہرمدینہ میں داخل ہوئے۔

چنانچہ جب وہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ان کی عبادت کا وقت آگیا۔ ناقوس بجا اور انہوں نے مشرق کی طرف رخ کر کے عبادت شروع کر دی۔ لوگوں نے روکنا چاہا، لیکن حضور (ص) نے منع فرمایا۔ یہ آزادیٔ عقیدہ و عمل کا بے مثال نمونہ ہے کہ مسجد نبوی (ص) کی چار دیواری کے اندر بھی غیر مسلموں کو اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کرنے اور اعمال بجا لانے کی آزادی دی گئی، جب کہ یہ لوگ رسالت محمدی (ص) کے منکر تھے۔

انہیں تین دن تک مہلت دے دی گئی۔ تین روز کے بعد حضور (ص) نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے کہا: مسیح علیہ السلام کے بعد آنے والے نبی سے متعلق توریت میں موجود تمام اوصاف آپ (ص) کے اندر موجود ہیں، سوائے ایک صفت کے، جو سب سے اہم ہے۔ وہ یہ کہ آپ مسیح علیہ السلام کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کی تکذیب کرتے ہیں، انہیں بندۂ خدا کہتے ہیں۔ حضور (ص) نے فرمایا: میں مسیح علیہ السلام کی تصدیق کرتا ہوں، ان پر ایمان لاتا ہوں اور گواہی دیتاہوں کہ وہ نبی مرسل اور عبد خدا تھے۔

وفد: کیا وہ مردوں کو زندہ نہیں کرتے تھے، مادر زاد اندھوں کو بینائی نہیں دیتے تھے اور برص کے مریضوں کو شفا نہیں دیتے تھے؟

حضور(ص): یہ سب باذن خدا انجام دیتے تھے۔

وفد: مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ بھلا کوئی بندہ بغیر باپ کے پیدا ہوتا ہے؟

حضور(ص): اللہ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی طرح ہے کہ اسے مٹی سے خلق فرمایا پھر حکم دیا: بن جاؤ، وہ بن گیا۔

نجران کا وفد اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ انہوں نے دلیل و برہان کو قبول نہیں کیا۔

اس وقت حضور (ص) پر غشی کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور وحی میں یہی آیت مباہلہ  نازل ہوئی۔

حضور ﷺ نے یہ آیت پڑھ کر حاضرین کو سنائی اور فرمایا: اگر تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے ساتھ مباہلہ کروں۔

وفد والے اپنے ٹھکانے پر واپس چلے گئے اور آپس میں کہنے لگے کہ محمد (ص) نے ہمیں ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ کل دیکھو وہ کس قسم کے لوگوں کے ساتھ مباہلے کے لیے نکلتے ہیں۔ اپنے سارے پیروکاروں کے ساتھ؟ یا اپنے بڑے اصحاب کے ساتھ؟ یا اپنے قریبی رشتہ داروں اور تھوڑے دیندار لوگوں کے ساتھ؟ اگر یہ بڑی جمعیت کی معیت میں جاہ و جلالت کے ساتھ شاہانہ انداز میں نکلتے ہیں تو کامیابی تمہاری ہے۔ اگر تواضع کے ساتھ چند ہی لوگوں کے ساتھ نکلتے ہیں تو یہ انبیاء کی سیرت اور ان کے مباہلے کا انداز ہے۔ اس صورت میں تمہیں مباہلے سے گریز کرنا چاہیے۔

۲۴ ذی الحجۃ کی صبح طلوع ہوئی اور حق و باطل میں ہمیشہ کے لیے فیصلہ کن دن آ گیا۔ رسول خدا (ص) نے حکم دیاکہ دو درختوں کو کاٹ کر ان کی درمیانی جگہ کو جھاڑو دے کر صاف کیا جائے۔ صبح ہوئی تو ان دونوں درختوں پر ایک سیاہ کساء (چادر) خیمے کی شکل میں ڈال دی گئی۔

نجرانی وفد میں السید اور العاقب اپنے دونوں بیٹوں کی معیت میں نکلے۔ وفد کے دیگر ارکان یعنی قبائل کے سردار بھی بہترین لباس زیب تن کیے نہایت تزک و احتشا م کے ساتھ ہمراہ تھے۔

دوسری طرف رسول اللہ (ص) حسنین (ع) کا ہاتھ پکڑے نکلے۔ پیچھے حضرت فاطمہ (س) اور ان کے پیچھے علی (ع) تھے۔ اس کساء کے نیچے پانچوں تن تشریف فرما ہوئے اور حضور (ص) نے فرمایا: میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔ اس کے بعد حضور (ص) نے السید اور العاقب کو مباہلے کی دعوت دی۔ ان دونوں نے عرض کی: آپ (ص) کن لوگوں کو ساتھ لے کر ہمارے ساتھ مباہلہ کر رہے ہیں؟ حضور (ص) نے فرمایا: باھلکم بخیر اھل الارض ۔ میں اہل زمین میں سب سے افضل لوگوں کو ساتھ لے کر تمہارے ساتھ مباہلہ کر رہا ہوں۔

یہ دونوں اپنے اسقف (پادری) کے پاس لوٹ گئے اور اس سے پوچھا: آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ پادری نے کہا:میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ شخص (محمدؐ) ان کو وسیلہ بنا کر خداسے دعا کرے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ضرور ہٹ جائے گا۔ خبردار ان کے ساتھ ہرگز مباہلہ نہ کرنا، ورنہ روئے زمین پر قیامت تک کوئی نصرانی نہیں رہے گا۔ چنانچہ وہ مباہلہ کی جرأت نہ کر سکے اور جزیہ دینے کا معاہدہ کر کے واپس چلے گئے۔

تفسیری نکات:

مباہلے کی باری تب آتی ہے جب واضح عقلی دلائل سے انکار کیا جائے۔
مورخین کا اتفاق ہے کہ اَبۡنَآءَنَا سے مراد حسنین علیہما السلام اور نِسَآءَنَا سے مراد فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اَنۡفُسَنَا سے مراد علی علیہ السلام ہیں۔ واضح ہو گیا کہ آل رسول (ص) کون ہیں۔
حق و باطل کے اس عظیم معرکے میں یہی پانچ ہستیاں شامل ہوئیں۔ ثابت ہوا کہ دعوت اسلام کی کامیابی ان کے بغیر ممکن نہیں۔
یہ صادقین کا گروہ تھا اور ان کے مقابلے پر آنے والے کاذبین تھے۔
ان عظیم ہستیوں کی ہم پلہ مزید ہستیاں موجود نہیں تھیں، ورنہ مباہلے کے دن رسول (ص) انہیں بھی لے کر نکلتے۔

ماہِ ذی الحج کوئز کے سوالات ۲۰۲۳

۱۔ جو کہتا ہے: ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں (سب کچھ) دے دے اور ایسے شخص کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الف:دعا قبول ہے

ب:دنیا میں بھی حصہ ہے اور آخرت میں بھی

ج: آخرت میں کوئی حصہ نہیں

د:جنت

 

۲۔حجاج کرام ۹ ذی الحجہ  کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے مقام پر ٹہرتے ہیں۔

الف:منی

ب:عرفات

ج:مزدلفہ

د:مکہ

 

۳۔ روایات کے مطابق ذبح عظیم کے مصداق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔

الف:حضرت اسماعیلؑ

ب: امام حسین علیہ السلام

ج:حضرت حمزہؑ

د:ب اور ج درست ہیں۔

 

۴۔ذکر جمیل سے کیا مراد ہے؟

الف:حضرت ابراہیمؑ کے بعد کے انبیاء کا ان کی ذریت سے ہونا

ب:ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو حج کا حصہ قرار دیا جانا

ج: ان کی قربانی کی یاد میں تا قیامت قربانیوں کا ہونا

د:تینوں درست ہیں

 

۵۔ نماز کے تین ارکان کونسے ذکر ہوئے ہیں؟

الف:قیام، قرائت اور تکبیر

ب:رکوع، قنوت اور تشہد

ج: قیام، رکوع اور سجود

د:نیت، قیام اور قرائت

 

۶۔ آیت کا ترجمہ بتائیے: سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ (سورہ صافات آیت ۱۰۲ تا ۱۱۰)

الف: کامیابی صبر کرنے والوں کے لئے ہے

ب: اللہ چاہتا ہے صبر کرنے والے کامیاب ہوں

ج: اللہ نے چاہا تو ہم صبر کرنے والے ہوں گے

د: اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے

 

 

۷۔ رسول اللہﷺ نے کس جملے کو تین مرتبہ ادا فرمایا؟

الف:مباہلے کی بددعا

ب:اعلان ولایت

ج: اظہار برائت

د:ب اور ج درست ہیں۔

 

۸۔ صاحبِ تفسیرالمیزان علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:اعلان ولایت کے بعد یہ دین مرحلہ وجود سے مرحلۂ بقا میں داخل ہوگیا۔ یہ جملہ کونسی سورہ اور آیت کے حاشیہ میں نقل ہے؟ (حاشیے کا مطالعہ فرمائیں)

الف: سورہ مائدہ، آیت ۶۱

ب: سورہ آل عمران، آیت ۶۷

ج:سورہ مائدہ ، آیت ۳

د:سورہ حج ، آیت ۹

 

۹۔مباہلے کے لیے نجرانی وفد میں۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے دونوں بیٹوں کی معیت میں نکلے۔

الف:راہب، السید

ب:عالم ، العاقب

ج: السید، العاقب

د:العاقب، راہب

 

۱۰۔جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں داخل ہوگیا وہ امان والا ہوگیا۔

الف:عرفات

ب:مزدلفہ

ج:مکہ

د:مقامِ ابراہیمؑ

 

۱۱۔ حرم کی نیکی کیا ہے؟

الف: ہر قدم پر ستر نیکیاں ہیں۔

ب: : ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے

ج:وہ نیکی جس سے انسان کبھی تنگدست نہ ہو۔

د:الف اور ج درست ہیں۔

 

۱۲۔ وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ۔ یہ کس سورہ اور آیت کا حصہ ہے؟

الف:سورہ بقرہ ، آیت ۱۹۹

ب:سورہ آل عمران، آیت ۹۶

ج:سورہ حج، آیت ۲۹

د:سورہ آل عمران، آیت ۶۱

 

۱۳۔ اللہ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی طرح ہے کہ اسے۔۔۔۔۔۔ سے خلق فرمایا۔

الف:انسان، مٹی

ب: آدم علیہ السلام، مٹی

ج:آدم علیہ السلام، نور

د:انسان ، نور

 

۱۴۔’’ ابراہیم پرسلام ہو‘‘ سورہ اور آیت کا حوالہ دیں۔

الف:سورہ صافات، آیت ۱۰۱

ب:سورہ حج، آیت ۴۴

ج:سورہ صافات، آیت ۱۰۹

د:سورہ بقرہ، آیت ۵۶

 

۱۵۔ برکت کسی چیز میں اللہ کی طرف سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثابت ہونے کے معنوں میں ہے۔

الف: اچھائی

ب:مدد و نصرت

ج:اضافہ

د:رضایت

 

۱۶۔ الابتہال یعنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 الف: نفرت کرنا

ب:عاجزی سے دعا کرنا

ج: نصیب

د: روانہ ہونا

 

۱۷۔۔ انبیاء علیہم السلام کے خواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کا درجہ رکھتے ہیں۔

الف:حقیقت

ب: وجوب

ج: وحی

د: الہام

 

۱۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔انسانیت کا مرکز و محور اور اس کے امن کا گہوارہ ہے۔

الف:ولایت

ب: کعبہ

ج:بیت المقدس

د:الف اور ب درست ہیں

 

۱۹۔ فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ میں امام صادقؑ سے کونسی نشانیاں مراد ہیں؟

الف: حجر اسود

ب: مسکن اسماعیلؑ

ج: مقام ابراہیمؑ

د:تینوں درست ہیں۔

 

۲۰۔یہودیوں کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ساڑھے چار سو برس بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا۔

الف: بیت المقدس

ب:کعبہ

ج:ہیکل سلیمانی

د:مسجد اقصی

 

۲۱۔سورہ آل عمران آیت ۹۷ میں کونسا قطعہ شامل ہے؟

الف: وَّ طَہِّرۡ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ

ب: لبیک اللّٰہم لبیک

ج: وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ

د: فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ

 

۲۲۔ قطع اور جدا کرنے کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں۔

الف: ازالہ

ب: قضا

ج: ضَامِر

د: مساوی

 

۲۳۔ ’’تم پر کوئی مضائقہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو‘‘ یہاں فضل سے مراد ۔۔۔۔۔۔  ہے۔

الف: کسب حلال

ب: تقویٰ

ج: عمل صالح

د:حرم

 

۲۴۔ سموع من اللّٰہ کا معنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔

الف:رب کا فضل

ب:اللہ کے برگزیدہ

ج:اللہ کی قربانی

د: اللہ کو خوب سننے والا 

 

۲۵۔ رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع کونسی ہجری میں ادا کیا؟

الف: ۱۰ ہجری

ب: ۱۱ ہجری

ج:۹  ہجری

د:۱۲ ہجری